تازہ ترین
چوہدری شجاعت حسین سے پارٹی رہنماؤں کی ملاقات، ملکی و سیاسی صورتحال پر مشاورت October 5, 2025 عائشہ بشیر کلیفٹ ہسپتال گجرات میں 12 اکتوبر سے انٹرنیشنل کلیفٹ کیمپ کا آغازگا: ڈپٹی کمشنر نورالعین قریشی October 4, 2025 وفاقی سیکرٹری محی الدین وانی کا پاکستان بلائنڈ اسپورٹس فیڈریشن کے تربیتی کیمپ کا دورہ October 4, 2025 سینیٹر دنیش کمار کا پاکستان اسپورٹس کمپلیکس میں بلائنڈ اسپورٹس کے ٹریننگ کیمپ کا معائنہ October 3, 2025 سی او ایجوکیشن جہلم ڈاکٹر نازیہ شہزادی سے عائشہ بشیرکلیفٹ ہسپتال کے وفد کی ملاقات انٹرنیشنل کیلفٹ کیمپ کی دعوت October 2, 2025 ڈی سی جہلم سے عائشہ بشیر کلیفٹ ہسپتال گجرات کے وفد کی ملاقات انٹرنیشنل کلیفٹ کیمپ کی دعوت دی October 2, 2025 September 26, 2025 وزیراعظم میاں شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا حالیہ دورہ وائٹ ہاؤس اور امریکی صدر سے ملاقات ایک تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے:چوہدری ندیم منظور بیگہ September 26, 2025 پاک سعودی تعلقات میں استحکام میں مولانا طاہر اشرفی اور نواف بن سعید المالکی کا کردار September 24, 2025 مولانا طااہر اشرفی سے پاکستان بلائنڈ سپٌورٹس فیڈریشن کے وفد کی ملاقات، پاک سعودی عرب دوستی میں استحکام کے لئے ان کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا September 24, 2025

نوجوانوں، تحقیق اور ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں سے استفادہ پائیدار ترقی کی کلید ہے: آئی پی ایس فورم

اسلام آباد، 15 ستمبر:

پاکستان کو اندرونی اور بین الاقوامی نوعیت کے پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے، تاہم اس کے مستقبل کی کامیابی نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے، تحقیق کو فروغ دینے، ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے اور پالیسی میں جدت پیدا کرنے پر منحصر ہے، تاکہ وسائل اور تہذیبی قوتوں کو پائیدار ترقی میں ڈھالا جا سکے۔ مزید یہ کہ آئین میں درج اصولِ پالیسی قومی زندگی کے ہر پہلو کی سمت متعین کرتے ہیں اور پالیسی تحقیق کے لیے رہنما پیمانے کے طور پر کام کرنے چاہئیں۔ یہ بات دانشوروں، ماہرین تعلیم، سفارت کاروں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ٹیکنوکریٹس نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد کی نیشنل ایڈوائزری کونسل (این اے سی) کے سالانہ اجلاس میں کہی۔ یہ اجلاس کہنہ مشق اہلِ علم اور ماہرین سے فکری رہنمائی حاصل کرنے اور قومی مسائل کے حل کے لیے حقیقت پسندانہ تصورات تشکیل دینے کے پلیٹ فارم کے طور پر منعقد کیا جاتا ہے۔ فورم کی صدارت چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی، جبکہ مقررین میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور، وفاقی شرعی عدالت، ڈاکٹر شاہدہ وِزارت، ڈین، کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ، آئی او بی ایم کراچی، ڈاکٹر انور الحسن گیلانی، چیئرمین پاکستان کونسل برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ڈاکٹر سید طاہر حجازی، سابق رکن (گورننس) پلاننگ کمیشن آف پاکستان، ڈاکٹر مختار احمد، سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن، سید ابو احمد عاکف، سابق وفاقی سیکرٹری، مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی، سفیر (ر) مسعود خالد، ڈاکٹر رضیہ سلطانہ، وائس چانسلر، ویمن یونیورسٹی مردان، ڈاکٹر اسد زمان، سابق وائس چانسلر، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس، وائس ایڈمرل (ر) افتخار احمد راؤ، ڈاکٹر سید جُنید زیدی، سابق ریکٹر کامسیٹس یونیورسٹی، پروفیسر جلیل عالی، شاعر و محقق، ڈاکٹر وقار مسعود خان، سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ، ڈاکٹر صائمہ حمید، سابق وائس چانسلر فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، میجر جنرل (ر) ڈاکٹر نوئل کھوکھر، ڈاکٹر مسعود محمود خان، کرٹن یونیورسٹی آسٹریلیا، سفیر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس، اور نوفل شاہ رُخ، سی ای او، میو کوم و پالیسی اینالسٹ شامل تھے۔ شرکاء نے نوجوانوں کی تعلیم اور ٹیکنالوجی میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ملک کی یونیورسٹیوں میں طلبہ اور محققین کی شمولیت کو متحرک کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی پی ایس جیسے تھنک ٹینکس کو جامعات اور عالمی تحقیقی کاوشوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہیے اور تحقیق کو عملی، شواہد پر مبنی پالیسی سفارشات میں ڈھالنا چاہیے۔ حال ہی میں منظور شدہ اے آئی پالیسی کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا گیا، تاہم شرکاء نے نوجوان قیادت کو بااختیار بنانے اور اختراعات کو معاشی و سماجی ترقی میں شامل کرنے کے لیے واضح روڈ میپ کی عدم موجودگی کو اجاگر کیا۔ اس تناظر میں مقررین نے نوجوانوں میں بڑھتی انفرادیت پسندی پر تشویش ظاہر کی، جو اجتماعی قوت کو کمزور کرتی ہے، اور کہا کہ مکالمہ تعاون، انسانی تعلق اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے نہایت اہم ہے۔ خواتین کے بااختیار بنانے اور صنفی برابری کو بھی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا۔ گورننس اور ادارہ جاتی اصلاحات پر گفتگو کرتے ہوئے شرکاء نے امن و امان، مہنگائی، دہشت گردی کی دوبارہ لہر اور عدلیہ پر عوامی اعتماد میں کمی کو بڑے اندرونی مسائل کے طور پر بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مؤثر حکمرانی ان مسائل کے حل کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ مزید برآں، صوبائی حدود کو نسلی بنیادوں کے بجائے انتظامی بنیادوں پر ازسرِنو ترتیب دینے کی تجویز دی گئی۔ کمزور منصوبہ بندی اور ناقص عملدرآمد، خاص طور پر سیلابی انتظامات میں، حالانکہ وسیع نہری نظام موجود ہے، حکمرانی کے خسارے کی ایک اور نمایاں مثال کے طور پر بیان کیے گئے۔ مقررین نے ماحولیاتی تبدیلی کو ایک اور سنگین مسئلہ قرار دیا، اور کہا کہ بار بار آنے والے سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں پاکستان کی معیشت اور غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بحران صرف ماحولیاتی تبدیلی کے باعث نہیں بلکہ کمزور منصوبہ بندی اور ترقی کا نتیجہ بھی ہیں۔ اس ضمن میں فورم نے ماحولیاتی مسائل پر اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت اور نظام میں اصلاحات کی سفارش کی۔ مقررین نے بحری شعبے کو ایک ایسا اہم میدان قرار دیا جس میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے مگر اب تک استعمال نہیں ہو سکی۔ خاص طور پر جھینگا فارمنگ کو خوراکی تحفظ کا ایک اہم ذریعہ بنایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے لیے مربوط پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔ شپنگ کے شعبے میں نجی شعبے کی شمولیت کو سازگار ماحول فراہم کر کے فروغ دینا چاہیے، جبکہ بندرگاہوں کی پرانی ٹیکنالوجیز کی فوری طور پر اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے۔ خارجہ امور پر گفتگو کرتے ہوئے شرکاء نے عالمی عدم استحکام پر تشویش ظاہر کی، جو بڑھتی ہوئی امریکہ-چین رقابت، فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت جسے واشنگٹن کی پشت پناہی حاصل ہے، اور امریکہ کی بھارت نوازی سے پیدا ہو رہا ہے۔ اصولِ ضابطہ پر مبنی عالمی نظام کی کمزوری کو بھی اجاگر کیا گیا، جس کی مثال سلامتی کونسل کی جانب سے جارح قوتوں، بالخصوص اسرائیل، کو نامزد کرنے اور انہیں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں اور سنگین جرائم پر جواب دہ ٹھہرانے میں ہچکچاہٹ ہے۔ مقررین نے بھارت کے تسلط پسند عزائم اور مسائل پر غیر منطقی رویے کو ایک جامع چیلنج قرار دیا، جس میں حل طلب تنازعات اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے لے کر ہندوتوا کے بڑھتے اثرات تک شامل ہیں۔ فورم نے نتیجہ اخذ کیا کہ صرف سخت تحقیق اور جامع بصیرت پر مبنی پالیسی سازی ہی ملک کو ان بیرونی دباؤؤں کا مؤثر جواب دینے کے قابل بنا سکتی ہے۔