پاکستان اورانڈونیشیا کے باہمی تعلقات اور سفیر Chandra Warsenanto Sukotjo کا تعمیراتی کردار

پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پورے مسلم دنیا میں دو برادر ممالک کے درمیان اخوت، تعاون اور باہمی احترام کی بہترین مثال سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں ممالک نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے، جس کی بنیاد مذہبی ہم آہنگی، تاریخی اشتراک اور عوامی قربت پر رکھی گئی۔ انڈونیشیا وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947ء میں پاکستان کے قیام پر اسے تسلیم کیا، جبکہ پاکستان نے بھی انڈونیشیا کی آزادی کی جدوجہد کے دوران اس کی کھل کر حمایت کی۔ یہی تاریخی پس منظر آج کے مضبوط اور پائیدار تعلقات کی بنیاد ہے۔

آج پاکستان اور انڈونیشیا مختلف عالمی فورمز جیسے اقوام متحدہ (UN)، او آئی سی (OIC) اور ڈی-8 گروپ میں ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک ترقی پذیر معیشتوں کے زمرے میں آتے ہیں اور عالمی سطح پر جنوب-جنوب تعاون (South-South Cooperation) کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ انڈونیشیا کے ترقیاتی ماڈل کو سراہا ہے، خاص طور پر اس کی پائیدار اقتصادی اصلاحات، صنعتی ترقی، اور ماحولیاتی تحفظ کی پالیسیوں کو۔ دوسری جانب انڈونیشیا نے پاکستان کے ہنر مند افرادی قوت، صنعتی استعداد، اور جغرافیائی حیثیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

دونوں ممالک کے تعلقات میں معاشی پہلو مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں حکومتوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تجارت کا دائرہ روایتی اشیاء جیسے پام آئل اور ٹیکسٹائل سے نکل کر نئی صنعتوں تک بڑھایا جائے۔ انڈونیشی سفارتخانے کی کاوشوں سے مختلف تجارتی وفود کے تبادلے ہوئے ہیں جن میں توانائی، زراعت، معدنیات، آئی ٹی، اور سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات پر بات ہوئی۔ اسلام آباد اور جکارتہ کے درمیان براہِ راست پروازوں کے قیام پر بھی غور جاری ہے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام اور تاجروں کے درمیان نقل و حرکت آسان بنائی جا سکے۔

انڈونیشیا کے موجودہ سفیر جنرل (ریٹائرڈ) چاندرا وارسنانتو سوکوٹجو نے اپنے مختصر دورِ سفارت میں ہی دوطرفہ تعلقات کو نئی روح دی ہے۔ وہ نہ صرف ایک تجربہ کار سفارتکار ہیں بلکہ ایک عملی رہنما بھی ہیں جو ذاتی طور پر پاکستانی قیادت، بزنس کمیونٹی اور عوام سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کی کوششوں سے پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان متعدد نئے معاشی و ثقافتی منصوبے زیرِ غور آئے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد چیمبر آف کامرس، لاہور چیمبر، اور کراچی کے کاروباری مراکز میں ملاقاتوں کے دوران پاکستانی تاجروں کو انڈونیشیا میں سرمایہ کاری کی دعوت دی، اور دوطرفہ مشترکہ منصوبے (Joint Ventures) شروع کرنے پر زور دیا۔

سفیر چاندرا کی قیادت میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی انڈونیشی کلچرل نائٹس، فوڈ فیسٹیولز اور آرٹ ایگزیبیشنز نے پاکستانی عوام کو انڈونیشیا کی ثقافت، موسیقی اور فنونِ لطیفہ سے روشناس کرایا۔ انہوں نے پاکستان کے ثقافتی اداروں جیسے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (PNCA) کے ساتھ مل کر مختلف ثقافتی پروگرامات ترتیب دیے، جن میں “People-to-People Contact” کو فروغ دینے پر خاص توجہ دی گئی۔ ان سرگرمیوں کا مقصد صرف دونوں حکومتوں کے درمیان تعاون کو بڑھانا نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھائی چارے کی فضا قائم کرنا بھی تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ انڈونیشی سفیر نے تعلیمی شعبے میں بھی خصوصی دلچسپی لی۔ انہوں نے پاکستان کی مختلف جامعات جیسے قائداعظم یونیورسٹی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ساتھ علمی اشتراک کے منصوبے شروع کیے، جن کے تحت انڈونیشی طلباء پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی طلباء کو جکارتہ، یوگیاکارتا اور سورابایا کی معروف جامعات میں اسکالرشپ فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ علمی تبادلے مستقبل کے سفارتی تعلقات کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

دفاعی تعاون کے میدان میں بھی دونوں ممالک کے روابط بڑھ رہے ہیں۔ انڈونیشیا نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ دفاعی مشقوں، تربیتی پروگرامز اور فوجی تربیت کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ جنرل چاندرا نے اپنی فوجی پس منظر کی بدولت اس شعبے میں عملی پیش رفت ممکن بنائی، اور ان کی کوششوں سے دونوں ممالک کے دفاعی ادارے قریبی تعاون کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔

علاقائی سطح پر بھی دونوں ممالک کا کردار ہم آہنگ ہے۔ پاکستان اور انڈونیشیا دونوں اسلامی دنیا میں امن، رواداری اور ترقی کے علمبردار ہیں۔ کشمیر اور فلسطین جیسے عالمی مسائل پر دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کے موقف کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا نے اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کے فورمز پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی، جبکہ پاکستان نے بھی انڈونیشیا کے اندرونی و علاقائی امن کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو سراہا۔

مستقبل کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات میں مزید وسعت اور گہرائی کے امکانات بے پناہ ہیں۔ دونوں ممالک اگر تجارتی توازن بہتر بنائیں، تعلیم، توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مشترکہ منصوبے بڑھائیں، اور عوامی روابط کو مزید فعال کریں تو یہ دوستی خطے میں ایک مثالی شراکت داری کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔

انڈونیشیا کے سفیر جنرل چاندرا وارسنانتو سوکوٹجو کا کردار خراجِ تحسین کے قابل ہے۔ انہوں نے اپنی دانش، خلوص اور مثبت سوچ کے ذریعے پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان نہ صرف سرکاری تعلقات بلکہ عوامی دوستی کو بھی نئی زندگی بخشی ہے۔ ان کی قیادت میں دونوں ممالک کے تعلقات استحکام، ترقی اور اعتماد کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں — ایک ایسا دور جو مستقبل میں امن، ترقی اور برادرانہ اتحاد کی بنیاد بنے گا۔