موسمیاتی تبدیلی — میرپورخاص اور تھر کا بدلتا منظرتحرير شکيل چانڊيو

میرپورخاص کی پرسکون صبح تھی، تاریخ تھی 28 اکتوبر 2025۔ شہر کے ایک نجی ہال میں مختلف مذاہب، اداروں اور سماجی طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک مشترکہ مقصد کے تحت جمع ہوئے تھے۔ موقع تھا “سول سوسائٹی سپورٹ پروگرام (CSSP)” اور “کلائمیٹ اسمارٹ نیٹ ورک (CSN)” کی جانب سے منعقدہ ایک روزہ موسمیاتی کانفرنس کا، جس کا موضوع تھا: “کلائمیٹ چینج اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات”۔

تقریب کا آغاز نہایت روحانیت اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ماحول میں ہوا۔ قاری وحیداللہ خارانی نے تلاوتِ قرآنِ پاک سے آغاز کیا، ہندو برادری کے نمائندے شگن کمار نے گائتری منتر پڑھا، جب کہ مسیحی رہنما فادر سمسن نے بائبل کی دعائیں پڑھ کر فضا کو عقیدت سے بھر دیا۔ یہ منظر سندھ کی ثقافتی اور مذہبی رواداری کی عکاسی کر رہا تھا۔ بعد ازاں فنکار راحت فقیر نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کی وائی پیش کی، جس میں انسان اور فطرت کے اٹوٹ رشتے کی گونج سنائی دی۔

کانفرنس میں صوبائی وزیرِ ماحولیات دوست محمد راہمون، کمشنر میرپورخاص فیصل احمد عقیلی، ڈپٹی کمشنر رشید مسعود خان، سی ایس ایس پی کے سی ای او نور محمد بجیر، سی ایس این کے چیئرمین نواز کنبھَر، ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر اشوک سوٹھڑ، ڈاکٹر غلام قادر منگریو، ڈاکٹر پرشوتم کتھری، ڈاکٹر ذوالفقار مری، ڈاکٹر عاصم سمیجو، مذہبی رہنما فادر یونس، مولانا فدا حسین بنگلانی، پریم جھولائی، بھگت گینو مل، اور متعدد سماجی و خواتین رہنما شامل تھے۔

مقررین نے اپنے خطابات میں واضح کیا کہ موسمیاتی تبدیلی سندھ کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ بن چکی ہے۔ ڈاکٹر غلام قادر منگریو نے بتایا کہ گذشتہ دہائی میں صوبہ سندھ کا اوسط درجہ حرارت تقریباً 1.8 ڈگری بڑھ چکا ہے، جب کہ بارشوں کا نظام بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ ان کے مطابق میرپورخاص اور تھرپارکر کے علاقے اس تبدیلی کے سب سے بڑے شکار ہیں، کیونکہ ان کی معیشت کا انحصار زراعت اور مویشیوں پر ہے، جو دونوں براہِ راست موسمی حالات سے وابستہ ہیں۔

سندھ ایگریکلچرل یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر پرشوتم کتھری نے اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جنوبی سندھ میں فصلوں کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ خاص طور پر گندم، کپاس اور گوار جیسے فصلیں گرمی اور پانی کی کمی سے شدید متاثر ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حالات یہی رہے تو آئندہ دس برسوں میں زرعی پیداوار میں بیس فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔

تھرپارکر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام قادر منگریو اور سماجی رہنما راڌا بھیل نے بتایا کہ علاقے میں ہر دو سے تین سال بعد قحط سالی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، جس سے نہ صرف پانی کی قلت بڑھتی ہے بلکہ مویشیوں کے لیے چارہ بھی ناپید ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق 2024 میں تھرپارکر میں خشک سالی کے باعث 60 ہزار سے زائد جانور مر گئے تھے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مویشیوں کے مرنے سے ان کی معاشی بنیادیں ہل گئیں، کیونکہ دودھ اور گوشت ان کی خوراک اور آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں۔

ڈاکٹر ذوالفقار مری، جو سوائل سائنس کے پروفیسر ہیں، نے بتایا کہ مسلسل گرمی اور کم بارشوں کی وجہ سے زمین کی ساخت متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق میرپورخاص اور تھر کے علاقوں کی مٹی میں نامیاتی مادے کی مقدار کم ہو چکی ہے، جس کے باعث زمین کی زرخیزی گھٹ رہی ہے۔ “جب بارش نہیں ہوتی تو زمین بالکل خشک ہو جاتی ہے اور فصلیں اگانا ناممکن ہو جاتا ہے،” انہوں نے کہا۔

خواتین رہنماؤں نے بھی کانفرنس میں اہم نکتہ اٹھایا۔ نادیہ نقوی اور زرفشاں ارباب نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر صرف فصلوں یا مویشیوں تک محدود نہیں بلکہ سماجی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ “جب مویشی مر جاتے ہیں یا فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، تو سب سے پہلے عورتیں متاثر ہوتی ہیں، کیونکہ وہی پانی لاتی ہیں، کھانے کا بندوبست کرتی ہیں، اور گھریلو مالی دباؤ کو برداشت کرتی ہیں۔” انیلا اعجاز خان اور رضیہ شیر محمد نے تجویز پیش کی کہ حکومت خواتین کے لیے خصوصی تربیتی پروگرام شروع کرے تاکہ وہ موسمیاتی موافقت (Climate Adaptation) کے طریقے سیکھ سکیں اور اپنے گاؤں میں چھوٹے پیمانے پر عملی اقدامات اٹھا سکیں۔

کمشنر میرپورخاص فیصل احمد عقیلی نے بتایا کہ حکومت سندھ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے “سندھ کلائمیٹ چینج پالیسی 2022” پر عمل درآمد کر رہی ہے، جس میں زراعت، پانی اور مویشیوں کے تحفظ کو ترجیح دی گئی ہے۔ ڈائریکٹر ارلی وارننگ سسٹم صابر مہر نے کہا کہ میرپورخاص میں ایک جدید نظام قائم کیا جا رہا ہے جو بارشوں، طوفانوں اور خشک سالی کے خطرات سے متعلق عوام کو بروقت آگاہ کرے گا تاکہ وہ پہلے سے تیاری کر سکیں۔

کانفرنس میں مختلف ماہرین نے مقامی سطح پر حل بھی تجویز کیے۔ ان میں خشک سالی برداشت کرنے والی فصلوں کی کاشت، پانی بچانے کے لیے ڈرِپ ایریگیشن سسٹم، مقامی چارہ پیدا کرنے کے منصوبے، مویشیوں کی صحت کے لیے دیہی ویٹرنری نظام کی مضبوطی، اور مذہبی رہنماؤں کے ذریعے ماحولیات پر آگاہی مہم شامل تھیں۔ مذہبی رہنما مولانا فدا حسین بنگلانی، فادر یونس اور پریم جھولائی نے مشترکہ پیغام دیا کہ “تمام مذاہب انسان اور فطرت کے احترام کا درس دیتے ہیں، اس لیے فطرت سے انصاف کرنا ہماری مشترکہ اخلاقی ذمہ داری ہے۔”

تقریب کے اختتام پر صوبائی وزیر ماحولیات دوست محمد راہمون نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “موسمیاتی تبدیلی کوئی دور کی بات نہیں، یہ ایک حقیقت ہے جس کے اثرات ہم روز محسوس کر رہے ہیں۔” انہوں نے اعلان کیا کہ سندھ حکومت میرپورخاص اور تھر کے علاقوں میں “کلائمیٹ ریزیلینٹ ایگریکلچر” کے منصوبے شروع کرے گی، جن میں مقامی کمیونٹی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔

کانفرنس کا ماحول اختتام تک پُر امید رہا۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر سائنسی تحقیق، مقامی دانش، اور حکومتی پالیسیوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کر دیا جائے تو سندھ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بہتر طور پر نمٹ سکتا ہے۔

میرپورخاص اور تھر کے کسان، چرواہے اور مقامی خاندان روز اس حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں کہ موسم اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ گرمی کی شدت، غیر متوقع بارشیں، اور پانی کی قلت ان کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ مگر اس کانفرنس نے یہ امید جگائی کہ اجتماعی عزم، علم اور تعاون کے ذریعے ان خطوں کا مستقبل اب بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر مقامی لوگ، سرکاری ادارے، مذہبی رہنما، خواتین اور نوجوان ایک ساتھ قدم بڑھائیں تو سندھ کے ریگستانی علاقے بھی پھر سے سرسبز ہو سکتے ہیں — اور شاید یہی پیغام اس کانفرنس کی اصل کامیابی تھا