)بدلتی دنیا کا نیا منظرنامہ

عالمی سیاست اور بین الاقوامی معاملات کی دنیا کسی پرسکون سمندر کی طرح کبھی نہیں رہی۔ اس کے بہاؤ میں ہمیشہ طاقت کے تیز دھار رخ، معاشی دباؤ کی لہریں، سماجی انقلاب کی گونج اور دفاعی صف بندیوں کی دھمک موجود رہتی ہے۔ آج کا دور اس پیچیدگی کو مزید گہرا کر چکا ہے جہاں ایک طرف بڑی طاقتیں اپنی حکمتِ عملیوں کو ازسرِنو ترتیب دے رہی ہیں اور دوسری طرف ابھرتی ہوئی ریاستیں نئے عالمی توازن کی بنیادیں رکھ رہی ہیں۔ ایسے میں دنیا کے سیاسی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے نہ صرف گہری بصیرت درکار ہے بلکہ وہ وسیع زاویۂ نگاہ بھی ضروری ہے جو حالات کو محض واقعات نہیں بلکہ رجحانات کے طور پر دیکھ سکے۔
بین الاقوامی تعلقات میں سفارتی کشمکش، معاشی مفادات اور جغرافیائی محاذ آرائی نئی شکلوں میں سامنے آ رہی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان جاری سرد مسابقت عالمی تجارت، ٹیکنالوجی اور سیکیورٹی کی پالیسیوں کو براہِ راست متاثر کر رہی ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف مشرقِ وسطیٰ اور یورپ بلکہ جنوبی ایشیا اور افریقہ پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جہاں ممالک نئی صف بندیوں کے ذریعے اپنی جگہ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی ادارے، جنہیں کبھی دنیا کے نظم و نسق کے اصل ستون سمجھا جاتا تھا، اب شدید دباؤ میں ہیں اور اُن کی ساکھ بھی غیر یقینی کے دھارے میں بہتی محسوس ہوتی ہے۔
معاشی میدان میں بے یقینی کی کیفیت اور بھی گہری ہے۔ عالمی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ، کرنسیوں کا عدم استحکام اور مالیاتی اداروں کی پالیسیاں مسلسل تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے لیے نئے سوالات پیدا کر رہی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے جہاں معاشی نظم کا توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں ترقی پذیر ممالک اندرونی چیلنجوں کے باعث خود کے لئے بار بار نئی حکمتِ عملی کی ضرورت میں کرتے پائے جاتے ہیں۔ تجارت کے معاہدے، سرمایہ کاری کے بہاؤ اور توانائی کے مستقبل سے متعلق فیصلے آنے والے برسوں میں عالمی طاقت کے نقشے کو نئی صورت دے سکتے ہیں۔
سماجی اور ثقافتی سطح پر بھی دنیا ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں نئی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ حقوقِ انسانی، برابری، ماحولیات، آبادی کا دباؤ اور ثقافتی تغیرات نے عالمی سیاست میں ایک نئی پرت شامل کر دی ہے۔ ڈیجیٹل انقلاب نے ہر فرد کو آواز دی ہے اور ہر آواز کو اثر۔ اس نئے ماحول میں کوئی بھی ریاست یا حکومت عوامی رائے کو نظر انداز کر کے عالمی منظرنامے میں اپنی جگہ برقرار نہیں رکھ سکتی۔ سماجی تبدیلیاں اب صرف معاشرتی نہیں بلکہ سیاسی فیصلوں کا بنیادی محرک بن چکی ہیں۔
دفاع اور سیکیورٹی کے محاذ پر خطرات کی نوعیت پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے روایتی جنگ کے تصور کو تبدیل کر دیا ہے۔ سائبر حملے، مصنوعی ذہانت پر مبنی ہتھیار اور نئی دفاعی حکمتِ عملیوں نے عالمی سیکیورٹی کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں طاقت صرف فوجی حجم کی نہیں بلکہ تکنیکی برتری کی مرہونِ منت ہے۔ اس وقت دنیا کے ہر خطے میں کشیدگی، دہشت گردی کا خطرہ اور دفاعی اخراجات میں اضافہ عالمی امن کے لیے مستقل چیلنج بن چکے ہیں۔ دنیا کے یہ تمام رجحانات ہمیں بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی امور کو سمجھنے کے لیے نہ صرف تحقیق، مشاہدہ اور معلومات کی درست تشریح کی ضروری ہے بلکہ طاقت کے اس پیچیدہ کھیل کو ایک وسیع تاریخی اور سیاسی تناظر میں دیکھنا بھی ناگزیر ہے۔ ایسے دور میں گہرے تجزیے، بروقت بریفنگز اور درست حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔ عالمی سیاست کے تضادات، معیشت کے دباؤ، سماج کے بدلتے رویے اور دفاعی میدان کی تیز رفتار دوڑ—یہ سب مل کر ایک نئے عالمی آرڈر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جسے سمجھنا اب محض ضرورت نہیں بلکہ مستقبل کا تقاضا ہے۔