پاکستانی معاشرہ شاید دنیا کے ان چند معاشروں میں سے ہے جہاں چھوٹی باتیں پہاڑ اور بڑے پہاڑ ریت کے ذرے نظر آتے ہیں۔ یہاں کرکٹ کے میدان میں ایک کیچ چھوٹ جائے تو دلوں کی دنیا لرز جاتی ہے۔ ایک اوور خراب ہو تو جیسے پوری قوم کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ کبھی ہاکی کے کھلاڑی کی لغزش پر بحث ہوتی ہے کبھی فٹبال کے گول پر قومی غیرت کو مجروح سمجھا جاتا ہے۔ لوگ گھنٹوں اس ایک لمحے کی ناکامی پر تبصرے کرتے رہتے ہیں جیسے یہی وہ واقعہ ہو جس نے قوم کا مقدر بدل دینا تھا۔ گلی کے موڑ پر اگر کسی بدقسمت جوتی چور کو پکڑ لیا جائے تو محلے کی عدالت فوراً لگ جاتی ہے۔ کچھ لمحے پہلے تک خاموش گلی دھاڑتی ہوئی آوازوں سے بھر جاتی ہے۔ ہاتھ، الفاظ اور موبائل کیمرے چلتے ہیں۔ اس چھوٹی سی واردات کو یوں نمٹایا جاتا ہے جیسے ملک میں پہلی بار انصاف نے اپنی آنکھیں کھولی ہو۔ کچھ دیر بعد لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور پھر وہی روزمرہ کا معمول، وہی بے خبری، وہی خاموشی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی معاشرے میں وہ بڑے واقعات جن کی لپیٹ میں پوری قوم آتی ہے جن کے اثرات نسلوں تک پھیلتے ہیں ان پر وہ ہنگامہ نہیں اٹھتا۔ قومی خزانے کے فیصلوں پر، اداروں کے بوجھ پر، عوامی وسائل کے استعمال پر وہ اجتماعی شور سنائی نہیں دیتا۔ کھیل کے میدان کی معمولی غلطی کے مقابلے میں ریاستی معاملات کی بڑی خامیاں اکثر ایسے گزر جاتی ہیں جیسے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا گزر جائے۔ لوگ تھوڑی دیر کو حیران ضرور ہوتے ہیں مگر پھر اپنی روزمرہ کی الجھنوں میں کھو جاتے ہیں۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنی توانائیاں چھوٹے واقعات پر خرچ کر دیتی ہے اور اُن مسائل پر خاموش رہتی ہے جن کے لئے اجتماعی بصیرت، صبر اور پختہ ارادہ درکار ہوتا ہے۔ کھیل کے اسکور پر جذباتی ہو جانا آسان ہے، جوتی چور پر غصہ نکال دینا بھی سہل مگر اصل مشکل یہ ہے کہ ہم ان سوالوں کے جواب تلاش کریں جن کا تعلق قومی شفافیت، معاشی استحکام، انصاف کی فراہمی اور اجتماعی فلاح سے ہے۔ وہ سوال جو شاید ہمارے دلوں میں موجود تو ہیں مگر زبانوں پر آنے سے ڈرتے ہیں۔
اصل آزمائش یہی ہے۔ قومیں کھیلوں سے نہیں، اپنی ترجیحات کے تعین سے مضبوط ہوا کرتی ہیں۔ گلی میں انصاف کا شور مچانا آسان ہے، ریاستی فیصلوں میں شفافیت کا مطالبہ کرنا مشکل۔ لیکن جب تک ہم اپنے اندر اس جرأت کا آغاز نہیں کرتے ہمارا اجتماعی راستہ وہی رہے گا جو برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ ایک ایسا راستہ جہاں چھوٹے قصے ہمارے جذبات کو ہلا دیتے ہیں مگر بڑے حقائق ہمارے حسّاس دل تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ اگر کبھی ہم نے سنجیدگی سے سوچنے کی کوشش کی تو شاید ہمیں محسوس ہو کہ تبدیلی کا راستہ شور سے نہیں شعور سے گزرتا ہے۔ وہ شعور جو ہمیں بتاتا ہے کہ ایک کھلاڑی کی غلطی سے قومیں نہیں گرتیں مگر بدعنوانی، غیر شفافیت اور کمزور ترجیحات نسلوں کی کمر توڑ دیتی ہیں۔ اگر ہم نے کبھی اپنے اجتماعی مزاج کو تھام کر اس کا جائزہ لیا تو شاید ہمیں معلوم ہو کہ اصل مسئلہ جوتی چور نہیں وہ سوچ ہے جو بڑے مسائل سے نظریں چرا لیتی ہے۔
قومیں جب بیدار ہوتی ہیں تو ان کی ترجیحات اپنی جگہ تلاش کر لیتی ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں سے نئے راستے نکلتے ہیں، نئے فیصلے جنم لیتے ہیں اور نئی منزلیں اپنے قدموں تلے راستہ پیش کرتی ہیں۔ ہمارے سامنے بھی وہی لمحہ آ سکتا ہے اگر ہم چاہیں تو۔ فیصلہ آج بھی ہمارے ہاتھ میں ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹے شور کو پیچھے چھوڑ کر بڑے سچ کو سننے کی ہمت پیدا کریں۔





