راوش غزالہ صدیق وہ بیٹی جس نے روایتوں کے بوجھ کو توڑ کر اپنے نصیب کا خود فیصلہ لکھا

پنجاب کی دھرتی ہمیشہ بہادری اور غیرت کی علامت رہی ہے مگر کبھی کبھی اسی مٹی سے ایسی صدا اٹھتی ہے جو روایتوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ ضلع اٹک کی گلیوں میں ایک دن ایک بچی پیدا ہوئی، دائی نے خوشخبری سنائی مگر گھر کےچہروں پر خوشی کے چراغ نہ جلے، بیٹی تھی اس لئےسناٹا تھا۔ باپ نے منہ پھیر لیا، خاندان نے منہ موڑ لیا اور یوں نوزائیدہ راوش عارف اور اس کی ماں غزالہ صدیق کو گھر کی دہلیز سے باہر کر دیا گیا۔ غزالہ صدیق… وہ ماں، جس کے پاس صرف دو جوڑے، ایک کمزور جسم اور بازوؤں میں لپٹی ایک بیٹی تھی۔ مگر یہی عورت اپنی بیٹی کے لئے ڈھال، چراغ اور راستہ بنی۔ دن رات کام کیا، تدریس سے لے کر ٹیوشن تک ہر ذمہ داری نبھائی اور معاشرے کو دکھا دیا کہ اصل طاقت کا نام ماں ہے، غیرت کا نام ماں ہے اور عزت کا نام ماں ہے۔

آج غزالہ صدیق ایڈووکیٹ اپنے کردار، خدمت، علم اور وقار کی وجہ سے اٹک کی دھرتی پر کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ بیٹی کو بھی نام دیا اور مقام بھی۔ وقت گزرتا گیا اور راوش غزالہ نے تعلیم کے ساتھ ایک فیصلہ کیا—اس معاشرے میں بیٹی کی عزت تب ہوتی ہے جب وہ کمزور نہ ہو، مضبوط ہو، توانا ہو، طاقت کی علامت ہو۔ اس نے پیرا فورس کا راستہ چنا۔ ماں نے روکا، ڈری، مگر راوش کی آواز میں وہ اعتماد تھا جو مردوں کے کندھوں سے نہیں، ماں کی گود سے ملتا ہے “امی، میں وہ بنوں گی جو مرد نہیں بن سکے۔” لاہور ٹریننگ کالج میں 384 افسر تھے ان میں صرف 28 لڑکیاں… مگر ایک لڑکی سب سے نمایاں تھی۔ شوٹنگ رینج پر جب 300 میٹر پر اس کی 10 کی 10 گولیاں نشانے پر لگیں تو انسٹرکٹر خاموش ہو گئے۔ روایت اور حقیقت ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے… ایک بیٹی بندوق اٹھا کر تاریخ لکھ رہی تھی۔ پاسنگ آؤٹ پریڈ کا دن آیا۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف جب اسٹیج پر کھڑی تھیں اور سٹیج سے “بیسٹ شارپ شوٹر” کا نام گونجا— “محترمہ راوش عارف انفورسمنٹ آفیسر” پورا گراؤنڈ تالیوں سے لرز اٹھا اور اس لمحے کی شان ہی کچھ اور تھی… راوش نے میڈل ماں کے گلے میں ڈالا۔ غزالہ صدیق کے آنسو تاریخ کے صفحے پر گرے۔ “بیٹی، آج میری زندگی کی ساری تھکن ختم ہوگئی” آج راوش غزالہ پنجاب پولیس کی انفورسمنٹ وِنگ میں خدمت سرانجام رہی ہے۔ وہی لڑکی جسے ’’بیٹی‘‘ ہونے کی سزا دی گئی تھی۔ وہی لڑکی جسے دروازے سے دھکیل دیا گیا تھا۔ آج پورا پنجاب اس کا گھر ہے اور اس کی حفاظت اس کی ذمہ داری۔
یہ صرف راوش غزالہ کی کہانی نہیں… یہ ہر اُس بیٹی کی آواز ہے جو کسی کمرے میں چپ چاپ بیٹھی رو رہی ہے، ہر اُس ماں کی داستان ہے جو اپنے خوابوں کے لئے تنہا لڑ رہی ہے اور ہر اُس معاشرتی سوچ کے منہ پر طمانچہ ہے جو آج بھی بیٹی کو بوجھ سمجھتی ہے۔ جب ماں اور بیٹی ایک ہو جائیں… تو خاندان کیا، معاشرہ کیا، دنیا کی کوئی طاقت انہیں نہیں روک سکتی۔ اور راوش غزالہ صدیق آج بھی اپنے ہدف پر ہے۔ ہر گولی کے ساتھ وہ پیغام دیتی ہے “میں بیٹی ہوں… اور میری ہمت کبھی خطا نہیں کھاتی”





