
تحریر :عاطف ایوب بٹ
“ہم عمروں کے دباؤ کا مقابلہ“ جذبات سے نہیں بلکہ دانشمندانہ فیصلوں سے کیا جا سکتا ہے۔ نوجوان اگر یہ سیکھ لے کہ ہر دعوت، ہر رجحان اور ہر چلن قابلِ قبول نہیں تو وہ بہت سی اخلاقی لغزشوں سے بچ سکتا ہے۔ مضبوط کردار وہی ہوتا ہے جو دباؤ میں بھی اپنے اصولوں پر قائم رہے۔
مثبت سرگرمیوں میں شمولیت، تعمیری سوچ رکھنے والے دوستوں کا انتخاب، مطالعہ، مکالمہ اور خود احتسابی وہ ذرائع ہیں جو نوجوان کو اندر سے مضبوط بناتے ہیں۔ جب نوجوان کا مقصد واضح ہو تو وہ محض دوسروں کی نقالی نہیں کرتا بلکہ خود ایک مثال بن جاتا ہے۔
کردار سازی کوئی ایک دن کا عمل نہیں بلکہ مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ سچائی، دیانت، صبر اور خودداری وہ اقدار ہیں جو انسان کو وقتی فائدے کے بجائے دیرپا کامیابی عطا کرتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ معاشروں کی قیادت ہمیشہ کردار والے افراد نے کی ہے، نہ کہ محض مقبول چہروں نے۔پاکستان میں انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے اخلاق سے عاری مقبول چہروں کو ایسا پینٹ کر کے پیش کیا ہے کہ نوجوان نسل ان کے پیچھے دیوانی ہوئی جا رہی ہے جس سے پوری قوم اخلاقی دیوالیہ کا شکار ہو چکی ہے
آج تعلیمی اداروں کی ذمہ داری صرف نصابی تعلیم تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ انہیں علمی بیداری اور فکری تربیت کا مرکز بننا ہوگا۔ اساتذہ، والدین اور معاشرہ اگر نوجوان کو یہ شعور دے دیں کہ اصل کامیابی خود سے نظریں ملانے میں ہے، تو بہت سے اخلاقی بحران خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر نوجوان نسل آج اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گی تو کل یہی نسل ایک باوقار اور باکردار معاشرے کی بنیاد رکھے گی۔ کیونکہ کردار کا نقصان سب سے مہنگا نقصان ہوتا ہے، اور اس کی قیمت پوری قوم ادا کرتی ہے






