تازہ ترین
انقلاب منچو کے ترجمان اور ڈھاکہ-8 سے ممکنہ امیدوار عثمان ہادی انتقال کر گئے December 19, 2025 شہر کی بڑی و مرکزی شاہراہوں اور اہم پبلک مقامات پر شام 5 بجے احتجاجی دھرنے دیے جائیں گے: اعلامیہ جماعت اسلامی December 19, 2025 غیر قانونی ہجرت کی روک تھام کے لیے جدید اقدامات، پاکستان میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال شروع December 19, 2025 شدید بارشوں کے باعث یو اے ای میں فضائی پروازیں متاثر ہونے کا خدشہ، ایئر عربیہ کا ٹریول ایڈوائزری جاری December 19, 2025 سویرا ندیم: باوقار فنکارہ، باکمال شخصیت December 19, 2025 : پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف اموویبل پراپرٹی آرڈیننس 2025 کے تحت ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی کا اجلاس، متعدد اراضیات واگزار December 18, 2025 لیجنڈ جاوید میانداد کے لیے دعاؤں کی اپیل December 18, 2025 جی ٹی ایس سے الیکٹرک بس سروس کا سفر December 18, 2025 عمران خان کے صاحبزادوں کا پاکستان آنے کا اعلان، سابق وزیراعظم کی جیل میں حالت پر تشویش December 18, 2025 پاکستان بزنس فورم کھاریاں کے وفد کی نومنتخب تاجر قیادت سے ملاقات، مسائل کے حل اور باہمی تعاون پر اتفاق December 17, 2025

کردار سازی اور فکری بیداری منفی دباؤ کا مقابلہ اور مثبت راستے

تحریر :عاطف ایوب بٹ
“ہم عمروں کے دباؤ کا مقابلہ“ جذبات سے نہیں بلکہ دانشمندانہ فیصلوں سے کیا جا سکتا ہے۔ نوجوان اگر یہ سیکھ لے کہ ہر دعوت، ہر رجحان اور ہر چلن قابلِ قبول نہیں تو وہ بہت سی اخلاقی لغزشوں سے بچ سکتا ہے۔ مضبوط کردار وہی ہوتا ہے جو دباؤ میں بھی اپنے اصولوں پر قائم رہے۔
مثبت سرگرمیوں میں شمولیت، تعمیری سوچ رکھنے والے دوستوں کا انتخاب، مطالعہ، مکالمہ اور خود احتسابی وہ ذرائع ہیں جو نوجوان کو اندر سے مضبوط بناتے ہیں۔ جب نوجوان کا مقصد واضح ہو تو وہ محض دوسروں کی نقالی نہیں کرتا بلکہ خود ایک مثال بن جاتا ہے۔
کردار سازی کوئی ایک دن کا عمل نہیں بلکہ مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ سچائی، دیانت، صبر اور خودداری وہ اقدار ہیں جو انسان کو وقتی فائدے کے بجائے دیرپا کامیابی عطا کرتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ معاشروں کی قیادت ہمیشہ کردار والے افراد نے کی ہے، نہ کہ محض مقبول چہروں نے۔پاکستان میں انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے اخلاق سے عاری مقبول چہروں کو ایسا پینٹ کر کے پیش کیا ہے کہ نوجوان نسل ان کے پیچھے دیوانی ہوئی جا رہی ہے جس سے پوری قوم اخلاقی دیوالیہ کا شکار ہو چکی ہے
آج تعلیمی اداروں کی ذمہ داری صرف نصابی تعلیم تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ انہیں علمی بیداری اور فکری تربیت کا مرکز بننا ہوگا۔ اساتذہ، والدین اور معاشرہ اگر نوجوان کو یہ شعور دے دیں کہ اصل کامیابی خود سے نظریں ملانے میں ہے، تو بہت سے اخلاقی بحران خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر نوجوان نسل آج اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گی تو کل یہی نسل ایک باوقار اور باکردار معاشرے کی بنیاد رکھے گی۔ کیونکہ کردار کا نقصان سب سے مہنگا نقصان ہوتا ہے، اور اس کی قیمت پوری قوم ادا کرتی ہے