
محمد عارف خان (کھاریاں)
پنجاب میں عوامی ٹرانسپورٹ کی تاریخ محض آمدورفت کی کہانی نہیں بلکہ ریاستی انتظام، پالیسی تسلسل اور عوامی وسائل کے استعمال کا ایک جامع مطالعہ ہے۔ اس تاریخ میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (GTS) کا عروج و زوال ایک نمایاں باب ہے جبکہ حالیہ برسوں میں متعارف کرائی جانے والی الیکٹرک بس سروس ایک نیا مگر آزمائشوں سے بھرا ہوا باب کھول رہی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ نئی ٹیکنالوجی درست ہے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا نئی سوچ بھی پرانی غلطیوں سے آزاد ہے۔
گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس(GTS) کا قیام بیسویں صدی کے وسط میں اس تصور کے تحت ہوا کہ ریاست شہری اور دیہی آبادی کو محفوظ، سستی اور قابلِ اعتماد سفری سہولت فراہم کرے۔ کئی دہائیوں تک یہ ادارہ پنجاب کے مختلف شہروں اور قصبوں میں روزمرہ زندگی کا حصہ رہا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی کمزوریاں نمایاں ہوتی گئیں۔ انتظامی فیصلوں میں شفافیت کا فقدان، سیاسی اثر و رسوخ، مالی نظم و ضبط کی کمی اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں ناکامی نے اس ادارے کو بتدریج غیر مؤثر بنا دیا۔
بسوں کی بروقت تبدیلی، ورکشاپس کی اپ گریڈیشن اور افرادی قوت کی پیشہ ورانہ تربیت جیسے بنیادی معاملات نظرانداز ہوتے رہے۔ نتیجتاً سروس کا معیار گرتا گیا، مالی خسارہ بڑھتا گیا، اور ریاستی سبسڈی ایک مستقل بوجھ بن گئی۔ بالآخر یہ ادارہ 1990 کی دہائی میں عملی طور پر ختم ہو گیا جبکہ اس کا قیمتی انفراسٹرکچر—بس اڈے، ورکشاپس اور اراضی—یا تو غیر استعمال رہا یا مختلف مفادات کی نذر ہو گیا۔ یہ انجام کسی ایک حکومت یا دور تک محدود نہیں تھا بلکہ مسلسل پالیسی غفلت کا نتیجہ تھا۔
آج، جب پنجاب میں الیکٹرک بس سروس کے منصوبے متعارف کرائے جا رہے ہیں تو منظرنامہ بظاہر مختلف ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں کمی، ایندھن کے متبادل ذرائع اور جدید شہری ٹرانسپورٹ کے تقاضے اس تبدیلی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ راولپنڈی اور دیگر شہروں میں الیکٹرک بسوں کے روٹس کا آغاز اسی عالمی رجحان کا حصہ ہے جسے دنیا کے کئی بڑے شہر اپنا چکے ہیں۔
تاہم، اس نئے ماڈل کا مالی اور انتظامی حجم غیر معمولی ہے۔ بسوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ چارجنگ اسٹیشنز، بجلی کی ترسیل کا مضبوط نظام، جدید ڈپو، تکنیکی عملہ اور ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹمز درکار ہیں۔ بین الاقوامی تجربات بتاتے ہیں کہ الیکٹرک ٹرانسپورٹ میں اصل لاگت صرف گاڑیوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ طویل المدتی آپریشن اور دیکھ بھال پر مرکوز ہوتی ہے۔ اگر ان پہلوؤں کی پیشگی منصوبہ بندی نہ کی جائے تو ابتدائی کامیابی جلد ہی مالی دباؤ میں بدل سکتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ماضی کا تجربہ مستقبل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج شفافیت کا ہے۔ جب تک منصوبوں کے مالیاتی خاکے، ٹینڈرز، آپریشنل ماڈلز اور سبسڈی اسٹرکچر عوامی سطح پر واضح نہیں ہوں گے تب تک اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح یہ فیصلہ بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے کہ سروس مکمل طور پر سرکاری نظام کے تحت چلے گی یا کسی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے جہاں کارکردگی کے واضح معیارات طے ہوں۔
دوسرا اہم پہلو پائیداری ہے۔ الیکٹرک بسیں جدید ٹیکنالوجی کی حامل ضرور ہیں مگر ان کی بیٹری لائف، متبادل پرزہ جات اور تکنیکی اپ گریڈیشن ایک مستقل سرمایہ کاری کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر یہ پہلو نظرانداز ہوا تو چند برس بعد یہی بسیں ایک اور ناکام تجربے کی علامت بن سکتی ہیں۔
عوامی ٹرانسپورٹ کے شعبے میں پاکستان پہلے ہی دنیا کے نسبتاً سستے نظاموں میں شمار ہوتا ہے جو سماجی اعتبار سے مثبت امر ہے۔ مگر اس سستی کے پیچھے اگر غیر واضح سبسڈی اور غیر مستحکم مالی ماڈل ہو تو اس کا بوجھ بالآخر قومی خزانے پر ہی پڑتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ معاشی حقیقت اور عوامی سہولت کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔
آخرکار، مسئلہ ٹیکنالوجی کا نہیں، طرزِ حکمرانی کا ہے۔ GTS کی ناکامی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اچھے مقاصد بھی کمزور انتظام کے باعث ناکام ہو سکتے ہیں۔ الیکٹرک بس سروس ایک موقع ہے—نہ صرف ٹرانسپورٹ کو جدید بنانے کا، بلکہ ادارہ جاتی اصلاحات کو عملی شکل دینے کا۔ اگر اس موقع سے سبق سیکھ کر فائدہ اٹھایا گیا تو یہ منصوبہ ایک کامیاب ماڈل بن سکتا ہے بصورتِ دیگر تاریخ خود کو دہرانے میں دیر نہیں لگاتی۔
یہ سرمایہ عوام کی امانت ہے اور اس کا درست استعمال ہی آنے والی نسلوں کو جواب دینے کا واحد قابلِ قبول طریقہ ہے۔





