جب آپ کا بچہ چوتھی جماعت کے کورس میں کوڈنگ، ڈیجیٹل خواندگی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مضامین سے نبرد آزما ہو اور جب آپ کی ننھی سی بیٹی کے ہوم ورک میں یہ سوال آجائے کہ ’’سوشل میڈیا نے نوجوانوں کے رشتوں کو کیسے بدلا ہے؟‘‘ تو جان لیجیے کہ آپ کسی عام عہد کے والدین نہیں بلکہ آپ اس ’’جنریشن زی‘‘ کے سرحدی سپاہی ہیں جو ایک نئی جنگ کے مورچوں میں اپنے بچوں کی معصوم پیشانیوں پر تہذیب و تربیت کی ڈھال رکھ کر کھڑے ہیں۔
یہ وہ جنگ ہے جو توپوں کی گھن گرج میں نہیں بلکہ ٹک ٹاک کی ٹک ٹک میں لڑی جارہی ہے۔ یہ وہ معرکہ ہے جو گولہ بارود سے نہیں بلکہ انسٹاگرام کی پوسٹوں، یوٹیوب کی ویڈیوز اور گیمز کے ڈیجیٹل نشتر سے لڑا جا رہا ہے۔
یہ جنگ اب آپ کے اُس آنگن میں ہے جہاں کبھی مٹی کی ہنڈیا میں لذیذ پکوان پکتے تھے، جہاں کبھی کچے صحنوں میں لٹو گھمائے جاتے تھے اور جہاں رسی کی ڈور پر سے چھلانگیں لگائی جاتی تھیں لیکن وہی آنگن اب سیل فون کی نیلی روشنی میں نہایا رہتا ہے۔ اب آپ کے بچوں کے ایک ہاتھ میں چپاتی اور دوسرے میں موبائل فون رہتا ہے۔
یاد کریں وہ لمحہ جب آپ کے والد نے پہلی بار آپ کو موٹر سائیکل پر بٹھایا تھا؟ لیکن اب آپ کا بچہ اس سے آدھی عمر میں ڈرون اڑا رہا ہے اور آپ کو کنٹرولر کی زبان ہی سمجھ نہیں آتی۔
یہ فاصلہ صرف نسلوں کا نہیں بلکہ یہ ایک پوری تہذیبی چھلانگ ہے۔ یہ ایک ایسا خلا ہے جسے پُر کرنے کےلیے آپ کے پاس کوئی تربیت ہے نہ ہتھیار اور نہ ہی وقت ہے۔
آپ نے اپنی عمر لینڈ لائن فون، ٹیپ ریکارڈر اور خط و کتابت میں گزار دی۔ آپ کےلیے ریڈیو پاکستان کی ٹوں ٹون ہی خبر کی ضمانت تھی مگر آپ کے بچے کےلیے خبروں کا ماخذ ٹوئٹر ہے اور معلومات کی کتاب گوگل ہے۔
جب بیٹی کہتی ہے کہ ’’ابو، مجھے ٹیبلٹ چاہیے کیونکہ اس پر ای بک پڑھنی ہے‘‘ تو آپ کی روح پہلے تو سوال کرتی ہے کہ ’’کتاب چھپتی ہے یا صرف ڈاؤن لوڈ ہوتی ہے؟‘‘ اور پھر آپ کا دل لرز اٹھتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی بل کھاتی گلیوں میں کہیں کوئی اندھیری کوٹھری نہ ہو۔
آپ کو وہ الفاظ تک معلوم نہیں جو بچے روز سن کر سیکھتے ہیں۔ وی پی این، فشنگ، ڈیپ فیک، سائبر بُلنگ، کلاؤڈ۔
یہ سب آپ کی لغت کے باہر کی دنیا ہے مگر یہ الفاظ آپ کے بچوں کی روزمرہ کی لغت میں شامل ہیں۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں آپ کی ہتھیلی خالی ہے اور آپ کے بچوں کے پاس پورا ڈیجیٹل اسلحہ خانہ ہے۔
آپ کے سامنے دوسرا محاذ مادی آسائشوں اور روحانی پیاس کی دو دھاری تلوار سے آراستہ ہے۔
آپ کے بچپن میں ’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ ہی خواب کی آخری سرحد تھے لیکن اب آپ کا بچہ کہتا ہے ’’ڈیڈی! میرے دوست کے پاس نیا آئی فون ہے، میرے پاس کیوں نہیں ہے؟‘‘
آپ اس سوال پر چپ ہوجاتے ہیں کیونکہ آپ کا جسم صبح آٹھ بجے دفتر جاتا ہے، شام کو پارٹ ٹائم نوکری کرتا ہے اور رات کو کسی طالب علم کو ٹیوشن دیتا ہے۔ پھر بھی یہ اطمینان نصیب نہیں ہوتا کہ بیٹے کے دل میں کمی کا سایہ نہ ہو۔
آپ جانتے ہیں کہ اصل قیمتی شے صبر ہے مگر آج کا سماج اسے محرومی کہتا ہے۔ آپ کے بچے کے اسکول میں کوئی اپنی سالگرہ تھیم پارک میں مناتا ہے تو آپ کی سادگی آپ کے بچے کو شرمندہ کردیتی ہے۔
وہ بچہ جو آپ کی گود میں جھولتا تھا، آج وہ واٹس ایپ پر آپ کے ساتھ تصویر لینے سے جھجکتا ہے کیونکہ آپ نے شلوار قمیض پہنی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ’’پاپا تھوڑے کُول لگیں‘‘۔
یہ وہ نفسیاتی دلدل ہے جس میں مڈل کلاس والدین ہر روز دھنستے ہیں۔ وقار، روایات، حیثیت اور استطاعت کے درمیان کبھی بچے کی خوشی جیتتی ہے تو کبھی والد کا دکھ۔
آپ کے سامنے تیسرا محاذ وہ ہے جہاں ایمان، اقدار اور تہذیب کے ستونوں کو جدید سوالات کی تپش چیرتی رہتی ہے۔
آپ کو سکھایا گیا تھا کہ ’’بزرگوں کے سامنے بولنا بے ادبی ہے‘‘ مگر آپ کا بیٹا کلاس میں استاد سے بحث کرتا ہے کیونکہ اُسے سکھایا گیا ہے کہ ’’سوال کرنے والا ہی سیکھتا ہے‘‘۔
آپ کی تربیت تھی کہ ’’شادی خاندان کا فیصلہ ہوتا ہے‘‘ مگر آپ کا بیٹا کہتا ہے کہ ’’میں شادی ہی نہیں کرنا چاہتا‘‘۔
آپ کے گھر میں رمضان ایک روحانی موسم ہوا کرتا تھا مگر اب وہی بچہ پوچھتا ہے کہ ’’روزے کے سائنسی فوائد کیا ہیں؟‘‘ آپ کے دل میں خوف جاگتا ہے کہ کہیں یہ سوال اسے مذہب سے دور ہی نہ لے جائے۔
آپ کا دل کہتا ہے کہ کاش آپ کے پاس کوئی ایسا علم ہوتا، کوئی ایسا جواب ہوتا یا الہ دین کا کوئی ایسا چراغ ہوتا جو آپ کے بچے کے ایمان کو بھی سنبھال لیتا اور عقل کو بھی مطمئن کر دیتا۔
مگر آپ خود تشکیک اور یقین کے بیچ جھول رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو خود معلوم نہیں کہ جدید سائنس اور اسلام کو ایک پُل پر کیسے اکٹھا کیا جائے؟ آپ کا دل روتا ہے اور رات کی تنہائی میں آپ کی آنکھوں میں برسات کی جھڑی اتر آتی ہے۔
یہ تنہا آپ کی کہانی نہیں۔ یہ ہر اُس والد کی داستان ہے جو اپنے بچے کی تربیت میں صرف پیٹ کی روٹی نہیں بلکہ روح کا رزق بھی تلاش کر رہا ہے۔
آپ جو کبھی قاعدے سے ’’ا، ب، پ‘‘ سیکھ کر چلنا سیکھتے تھے۔ اب آپ ایک نئی زبان، ایک نئی دنیا اور ایک نئی تہذیب کے ساتھ نہ صرف بچوں کو بلکہ خود کو بھی سنبھالنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
آپ وہ بے آواز سپاہی ہیں جنہیں فتح کے بعد کوئی تمغے نہیں ملتے مگر جن کی شکست کے اثرات نسلوں پر پڑتے ہیں۔
اے جنریشن زی کے والد!
آپ ایک خاموش جنگ لڑ رہے ہیں مگر آپ کا عزم گرجدار ہے۔ آپ کے بچوں کو علم نہیں کہ آپ کس کرب سے گزرے ہیں مگر تاریخ ضرور یاد رکھے گی کہ آپ ایک ایسی نسل کے معمار تھے جس نے خوابوں کو ٹوٹنے سے پہلے تھامنے کی قسم کھائی تھی۔
آپ کےلیے تیسرا چیلنج نفسیات کی وہ گود ہے جس میں ماں کی لوری نہیں بلکہ تنہائی کی چیخ سنائی دیتی ہے۔
آپ کے بچپن میں اگر والد نے غصے سے انگلی اٹھائی تو آپ نے ادب کے قاعدے ازبر کرلیے کیونکہ تمیز سیکھنے کےلیے آپ کو ایک تھپڑ ہی کافی ہوتا تھا۔
آج آپ کی بیٹی کہتی ہے کہ ’’ابو! میں اینگزائٹی سے گزر رہی ہوں‘‘۔ آپ کا بیٹا آہستگی سے کہتا ہے کہ ’’ڈیڈ! مجھ سے پڑھائی کا دباؤ برداشت نہیں ہوتا‘‘۔
آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب بہانے، ناز نخرے اور نئی نسل کی خودساختہ کہانیاں ہیں مگر آپ کی آنکھ ابھی اس دھند کو نہیں چیر سکی جو زمانے نے جنریشن زی کے گرد تان دی ہے۔
وہ دباؤ جو آپ کے زمانے میں زندگی کی سادگی چوس لیا کرتا تھا، آج سوشل میڈیا پر چمکتے چہروں، جھوٹی مسکراہٹوں اور فالوورز کے مصنوعی ہجوم میں آپ کے بچوں کی خودی کو پیس رہا ہے۔
یہ وہ زخم ہیں جن سے خون نہیں بہتا مگر اندر سے سارا وجود چھلنی کر دیتے ہیں۔ یہ وہ نفسیاتی کرب ہے جسے آپ ’’نخرہ‘‘ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ وہ کسک ہے جس کا نتیجہ خاموشی سے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
آپ کو سمجھ نہیں آتا کہ ایک بچہ جس کے پاس اسمارٹ فون ہے، جو آن لائن لیکچرز سنتا ہے اور یوٹیوب پر ہزاروں چینلز تک رسائی رکھتا ہے، وہ آخر کس کمی کا شکار ہوسکتا ہے؟ لیکن آپ کو کون بتائے کہ علم کی یہ وسعت درحقیقت ایک ایسا خلا ہے جس میں چیخ کی کوئی بازگشت ہوتی ہے نہ ہی کوئی چیخ سننے والا ہوتا ہے۔
لاہور، کراچی اور راولپنڈی جیسے شہروں کے اسکول اب صرف علم کے گہوارے نہیں رہے بلکہ اکثر اسکول کسی نہ کسی نوجوان کی آخری منزل بن جاتے ہیں۔ طلبا میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات ہمارے تعلیمی نظام کے روحانی بانجھ پن کی دلگرفتہ صدائیں نہیں تو اور کیا ہے؟
اور پھر آپ کے سامنے مستقبل کا خوف ایک ایسا آسیب ہے جو صرف راتوں میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں بھی آپ کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔
آپ نے اپنی جوانی میں نوکری، شادی، گھر اور گاڑی کے خواب دیکھے ہوں گے مگر آپ کا بیٹا کہتا ہے کہ ’’بابا! دنیا تو ختم ہو رہی ہے، گلوبل وارمنگ نے سب کچھ بدل دیا ہے‘‘۔
وہ دنیا جس میں آپ ’’پڑھ لکھ کر کچھ بننے‘‘ کی امید پالتے تھے اب ایک ایسی دنیا بن چکی ہے جس میں ڈگریاں فریموں میں بند ہوکر دیواروں کی زینت تو بن سکتی ہیں مگر پیٹ کا ایندھن نہیں بھر سکتی۔
آپ کو علم ہے کہ لاکھوں نوجوان ہر سال یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں تو انہیں روزگار کے دروازے بند ملتے ہیں، ایسے میں آپ کا بیٹا پوچھتا ہے کہ ’’میں پڑھ کر کیا بنوں گا؟‘‘ تو آپ آنکھیں چرانے لگتے ہیں کیونکہ آپ کی اپنی زبان اس وقت الفاظ نہیں صرف آہیں اُگلتی ہے۔
آپ کو خوف ہے کہ غربت کی دراڑوں میں آپ کا بیٹا کہیں منشیات کی راہوں پر نہ نکل جائے اور آپ کی بیٹی کسی غلط فکری دام میں نہ پھنس جائے۔
آپ کو یہ بھی علم ہے کہ دنیا کے افق پر جنگوں کے بادل منڈلا رہے ہیں اور وسائل کے چشمے دن بہ دن خشک ہوتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں ذہن میں سوالات کی ناگ پھُنیاں اُگنے لگتی ہیں تو پھر کیا کیا جائے؟
کیا یہ شکست ہے؟ نہیں!
یہ وہ معرکہ ہے جس میں قدموں کی لرزش ہار نہیں بلکہ عزم کا پہلا زینہ ہے۔
اس میں پہلا زینہ تبدیلی کا ہے! آپ کو اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور جدید تعلیم کے رموز، سب کو سیکھنا، سمجھنا اور اپنا بنانا ہوگا۔ آپ کو اپنے بچوں کی دنیا میں داخل ہونے کےلیے نئے دروازے کھولنے ہوں گے۔
دوسرا زینہ مکالمے سے طے ہوگا۔ آپ کو محبت بھرے انداز، بے خوف لہجے اور بغیر حکم چلاتے ہوئے مکالمے میں بچوں سے بات کرنی ہوگی۔ آپ کو اپنے زمانے سے نکل کر اپنے بچوں کو سننا ہوگا، ان کی بات سمجھنا ہوگی اور ان پر اپنی سوچ مسلط کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔
تیسرا زینہ گُتھیوں کو سلجھانا ہے۔ آپ کو اپنے بچوں کی نفسیاتی کیفیتوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ڈپریشن، اینگزائٹی اور سماجی دباؤ وغیرہ کوئی ’’کمزوری‘‘ نہیں بلکہ ایسی آوازیں ہیں جنہیں سننے کے لیے آپ کو کان نہیں بلکہ دل درکار ہے اور ایک باپ کے پاس دل ہی تو ہاتا ہے۔
چوتھا زینہ دل جیتنے سے طے ہونا ہے۔ اپنی اقدار کو نئے قالب میں ڈھالیں۔ اپنے بچوں کے سامنے مذہب کو محبت، دلیل کے ساتھ اور عمل کے آئینے میں پیش کریں۔ مذہب کو ڈنڈے سے نہیں بلکہ دل اور عمل سے پیش کریں۔
پانچواں زینہ وہ ہے جہاں آپ کی مثالیں کھڑی ہوں گی۔ آپ کو خود عملی نمونہ بننا ہوگا۔ اگر آپ سچ بولیں گے، ایمانداری کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور مشکلات سے نہیں گھبرائیں گے تو آپ کی اولاد بھی آپ کے پیچھے چلے گی۔
اے جنریشن زی کے والدین!
یہ جنگ آسان نہیں۔ یہ میدان آپ کے آباؤ اجداد کے تصور سے بھی باہر ہے مگر یاد رکھیں کہ تاریخ آپ کو یاد رکھے گی۔
آپ وہ پُل ہیں جو ماضی کی روایت کو مستقبل کے چیلنج سے جوڑ رہا ہے۔ آپ کے ہاتھ میں صرف اپنے بچوں کا ہاتھ نہیں بلکہ آپ کے ہاتھ میں پاکستان کا مستقبل بھی ہے۔
آپ اس سفر میں تنہا نہ رہیں! اپنے جیسے والدین کو ساتھ ملائیں، اساتذہ سے جُڑیں، ایک دوسرے کو سنیں، سکھائیں اور سہارا بنیں۔
وہ دن ضرور آئے گا جب آپ کا بیٹا آپ کندھے پر ہاتھ رکھ کر محبت سے کہے گا ’’بابا! آپ نے ہمیں سنبھال لیا‘‘۔
اور اسی لمحے آپ کی ساری تھکن، سارا ذہنی دباؤ اور سارا کرب ختم ہوجائے گا اور آپ کی قربانی کامیابی کے تاج میں بدل جائے گی۔