محمد عزیزالرحمان
پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ محض دو ممالک کے درمیان سفارتی یا معاشی تعلقات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو ایمان، عقیدت اور حرمین شریفین کی حرمت کے جذبے میں جڑا ہوا ہے۔ اسلامی دنیا میں یہ تعلق ہمیشہ ایک خاص اہمیت کا حامل رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مزید مضبوط اور مستحکم ہوا ہے۔ اس دوستی اور اعتماد کے سفر میں کئی شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا ہے جن میں پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا حافظ محمد طاہر محمود اشرفی اور پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی کی خدمات خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں شخصیات کی مشترکہ جدوجہد نے نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ ارضِ حرمین شریفین کی حفاظت پاکستانی فوج کی ایک دینی و قومی ذمہ داری ہے۔
مولانا طاہر اشرفی نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا کہ حرمین شریفین کا دفاع صرف سعودی عرب کا فریضہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی کانفرنسوں، علما کی مشاورت، مکالموں اور میڈیا کے ذریعے اس پیغام کو عام کیا کہ پاکستانی عوام اور ریاست سعودی عرب کے ساتھ ایک عقیدتی رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی مسلسل کاوشوں نے یہ احساس اجاگر کیا کہ پاکستانی قوم حرمین شریفین کے دفاع کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی ہے اور اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔
اس جدوجہد کے ساتھ ساتھ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ریاستی سطح پر تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ تعلیمی، ثقافتی اور تجارتی شعبوں میں بھی روابط کو وسعت دی اور یہ باور کرایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ وقتی یا وقتی ضرورتوں پر مبنی نہیں بلکہ دیرپا، مستحکم اور ایمانی بنیادوں پر قائم ہے۔ ان کی سفارتی بصیرت نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو صرف سیاسی یا عسکری تعاون تک محدود نہ رہنے دیا بلکہ عوامی اور روحانی سطح پر بھی اسے مزید گہرا کیا۔
پاکستانی فوج کا کردار اس اعتماد کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ 1969ء کے مسجد الحرام کے واقعے سے لے کر آج تک پاکستانی فوج نے سعودی عرب کے دفاع میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ سعودی افواج کی تربیت، عسکری معاونت اور دفاعی مشاورت میں پاکستان نے ہمیشہ ایک معتبر اور قابل بھروسہ شراکت دار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستانی فوج کو حرمین شریفین کے تحفظ کی ذمہ داری کے لیے بہترین فورس سمجھا اور اس پر اعتماد کیا۔
یہ اعتماد کسی ایک دن یا ایک فیصلے کا نتیجہ نہیں بلکہ برسوں کی جدوجہد، مکالمے اور اعتماد سازی کی ایک طویل داستان ہے۔ مولانا طاہر اشرفی کی فکری و مذہبی جدوجہد اور سفیر نواف بن سعید المالکی کی عملی و سفارتی کوششوں نے وہ ماحول پیدا کیا جس میں یہ اعتماد ایک حقیقت کے طور پر سامنے آیا۔ یہ تعلق نہ صرف دو ممالک کے درمیان ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک مثال ہے کہ ایمان اور اخوت پر مبنی تعلقات کس طرح دیرپا اور مستحکم ثابت ہوتے ہیں۔
مولانا طاہر اشرفی اور نواف بن سعید المالکی کی کاوشوں کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ صرف سفارت یا سیاست تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ایسا تعلق ہے جو ایمان، اخوت اور قربانی کے جذبے پر قائم ہے۔ پاکستانی فوج پر حرمین شریفین کی حفاظت کا اعتماد ایک عظیم اعزاز بھی ہے اور پاکستانی عوام کے جذبات و عقیدت کا عملی مظہر بھی۔ آج پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے ساتھ ایسے برادرانہ رشتے میں منسلک ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور جس کی بنیاد عقیدہ، محبت اور خدمت دین پر ہے۔