
امیر جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے سقوطِ ڈھاکہ کے المناک سانحے کے تناظر میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ محض ایک تاریخی حادثہ نہیں بلکہ ایک ایسے فرسودہ اور ظالمانہ نظام کا منطقی انجام تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد بھی مسلط رہا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس سانحے کے تین مرکزی کردار جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن تھے، تاہم اصل ذمہ داری اُس نظام پر عائد ہوتی ہے جو ناانصافی، جبر اور استحصال پر مبنی تھا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ پاکستان کروڑوں مسلمانوں کی جس تمنا، قربانی اور قیادت کے وعدے پر قائم ہوا تھا، بدقسمتی سے وہ نظام کبھی نافذ نہ ہو سکا۔ انگریز کا مسلط کردہ نظامِ حکمرانی جوں کا توں چلتا رہا، جس نے معاشرتی اور سیاسی ناانصافیوں کو جنم دیا، اور انہی کمزوریوں سے دشمن نے فائدہ اٹھا کر ملک کو دو لخت کر دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ جب تک ملک میں عدل و انصاف پر مبنی اسلامی نظام قائم نہیں کیا جاتا، اس طرح کے قومی سانحات کو روکنا ممکن نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ظلم و جبر پر قائم گلے سڑے نظام سے نجات حاصل کرنا ہی سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کا سب سے بڑا اور واضح سبق ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی نے قوم پر زور دیا کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے نظام کی حقیقی تبدیلی کے لیے متحد ہو، تاکہ پاکستان کو ایک منصفانہ، خودمختار اور مضبوط ریاست بنایا جا سکے، جہاں ہر شہری کو انصاف اور برابری میسر ہو۔






